بیابان میں دارالعرفان۔۔۔۔اور کرامت کسے کہتے ہیں؟؟
اللہ والوں کا عجب مزاج ہوتا ہے کہ وہ بیابانوں میں دیے جلاتے اور پھر لوگ اس روشنی کی جانب پروانوں کی طرح کھنچے چلے آتے ہیں۔۔۔۔۔شکرگڑھ کے درویش منش پنجابی شاعر جناب حکیم ارشد شہزاد اس مزاج کو "جنگل وچ اذان”کا نام دیتے ہیں۔۔۔یہ ان کی ایک کتاب کا نام ہے۔۔۔ان کی ایک کتاب” مقتل وچ دھمال” اور ایک کتاب کا نام "سولی اتے سچ”بھی ہے۔۔۔۔کتابوں کے یہ "سرنامے” بھی صوفیانہ مزاج کی چغلی کھاتے ہیں۔۔۔۔”جنگل وچ اذان” کی ایک مثال کلرکلہار کے بیچوں بیچ منارہ کے بیابان میں مولانا اکرم اعوان کا دارالعرفان بھی ہے۔۔۔کم و بیش نصف صدی پہلے 1978 کے وسط میں صوفی عالم دین حضرت مولانا اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ کو یہ گم نام میدان پسند آیا اور انہوں نے ایک روز نماز عصر کے بعد خود گیارہ کنال پر محیط یہاں مسجد اور روحانی مرکز کا سنگ بنیاد رکھا۔۔۔۔۔پھر جنگل میں اللہ اکبر کی صدائیں ایسی گونجیں کہ منارہ کا یہ کنارہ ناصرف مرجع خلائق بن گیا بلکہ اکناف عالم میں بھی اس خانقاہ کا شہرہ پھیل گیا۔۔۔جنگل میں گلستان مہک اٹھے تو اور کرامت کسے کہتے ہیں۔۔؟؟؟کندیاں شریف میں آسودہ خاک حضرت خواجہ خان محمد رحمتہ اللہ علیہ یاد آئے۔۔۔2008کی بات ہے۔۔۔خواجہ صاحب، گلبرگ لاہور کے اپنے مرکز میں صاحب فراش تھے۔۔۔میں برادرم شاہد اسرار کے توسط سے ان کی زیارت کے لیے گیا اور بڑے ادب سے پوچھا حضرت خانقاہ کیا ہوتی ہے۔۔۔؟انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ اللہ والوں کے وہ ٹھکانے جہاں بیٹھ کر وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔۔۔۔2000کے اوائل کی ایک سہ پہر بھی کبھی نہیں بھولے گی جب میں اور برادرم محمد عبداللہ نے کریم پارک لاہور میں خاک نشین سید حضرت نفیس شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ میں ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔۔۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بستی جنت البقیع میں اپنے شیخ مولانا زکریا کاندھلوی کے پہلو میں ابدی نیند سوئے مولانا عبد الحفیظ مکی رحمتہ اللہ علیہ سے پہلی ملاقات بھی ناقابل فراموش رہے گی۔۔۔یہ 2009کی بات ہے۔۔۔وہ خود چل کر میرے دفتر تشریف لائے اور دعا کرائی۔۔۔پھر سبزہ زار لاہور اور مکہ مکرمہ کی خانقاہوں میں ان کے ساتھ دل نشین نشستوں کے تو کیا کہنے۔۔۔دیدہ و دل فرش راہ کردیتے۔۔ایک کے بعد ایک منظر نقش خیال پر ابھرتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔۔۔۔دنیا کے بکھیڑوں سے فرصت ملے تو کچھ گھڑیاں اللہ والوں کی صحبت میں بتانی چاہیئں کہ بقول شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری یہ گوہر نایاب بزرگوں کے قدموں میں ہی ملتے ہیں۔۔۔۔اقبال نے بھی کہا تھا:
تمنا درد دل کی ہو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
نہ پُوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
لیکن ٹھہریے کہ یہ نصحیت اہل محبت کے لیے ہے کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔۔کوئی زبان دراز یہ مراد نہیں پاسکتا۔۔۔۔۔۔کچھ دن ہوئے تنظیم الاخوان کے سربراہ مولانا امیر عبدالقدیر کی دعوت پر منارہ کے اسی دارالعرفان جانا ہوا جس کی خشت اول مولانا اللہ یار خان صاحب نے رکھی تھی۔۔۔۔جناب محمد اکرم۔۔۔جناب عبدالرحمان اور جناب عبدالمالک منصوری کی معیت میں یہ دل والوں کا قافلہ تھا۔۔۔۔لاہور کے صحافیوں کے وفد میں خاکسار کے ساتھ جناب سعید اختر،جناب خالد منہاس،جناب محمد عبداللہ،جناب سید فرزند علی،جناب خالد شہزاد فاروقی،جناب حبیب چوہان،جناب فیصل سلہریا اور جناب راحیل شامل تھے۔۔۔جناب امیر عبدالقدیر اعوان نے مختصر سی نشست میں تصوف پر روشنی ڈالی اور کہا کہ تصوف purity of heart کانام ہے۔۔۔جیسے بچے کو قلم کا رخ سمجھایا جاتا ہے ایسے ہی سالک کے دل کی کیفیت کا رخ طے کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ تصوف کا مفہوم اس لیے بگڑا کہ وہ لوگ تصوف کی تفہیم کرنے لگے جن کا تصوف سے کوئی رشتہ ناتا ہی نہیں۔۔۔۔جیسے کوئی اردو کا استاد انگریزی اور انگریزی کا استاد اردو پڑھانے لگ جائےتو نتیجہ نوشتہ دیوار ہے۔۔۔۔برسوں پہلے کالج کے زمانے میں جناب مولانا اکرم اعوان کی بازگشت سنی تھی اوربرسوں بعد ان کے مرقد پر فاتحہ خوانی کرتے میں مولانا اللہ یار خان کی یاد میں کھو گیا کہ کس طرح ایک اللہ والے نے چشم زدن میں اپنے اس مرید کی زندگی کا رخ پھیر دیا اور وہ دنیا کی لذتیں بھول کر دین کے نشے مخمور ہو گئے۔۔۔۔۔مولانا اکرم اعوان ہی نہیں کچھ اور خوش قسمت بزرگ بھی مولانا اللہ یار خان چشمہ فیض سے سیراب ہوئے اور تب سے لوگوں کی روحانی پیاس بجھا رہے ہیں۔۔۔کوئی تین سال پہلے مولانا اللہ یار خان سے فیض یاب ایک بزرگ مجھے بھی بیٹھے بٹھائے مل گئے۔۔۔۔وہ ایک معتبر ادارے سے ریٹائرڈ ہیں۔۔۔سید علی بن عثمان علی ہجویری کے مزار کے پیچھے ایک نشست گاہ پر ان سے ملا تو لگا کہ دل سے میل قطرہ قطرہ تحلیل ہورہی ہے۔۔۔۔بدگمانی اور اتہام و دشنام کی باد سموم میں اللہ کے اس انعام یافتہ بندے کی باتیں باد نسیم و شمیم محسوس ہوتی ہیں۔۔۔۔جب کبھی مجلس میں جانے کا موقع ملے تو ایک ہی بات باہتمام فرماتے ہیں کہ صاحب ایمان کے ساتھ ساتھ خوش گمان ہو جائیے ۔۔۔کشتی کنارے لگ جائے گی۔۔۔دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات کرتے ہیں تو دل جھوم اٹھتا ہے۔۔۔رب کی رحمت اور برکات نبوت کی بات کرتے ہیں تو روح سرشار ہو جاتی ہے۔۔۔۔وہ اصحاب رسول کی مثال دیتے ہیں کہ وہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے بارے میں خوش گمان ہوکر دربار رسالت میں بیٹھے تو رب کی رحمت اور برکات نبوت کی برکھا میں اتنا بھیگے کہ اصحاب رسول کا درجہ پاکر خوش بخت ٹھہرے ۔۔دوسری جانب جو بدگمان ہوئے وہ سیاہ بخت کہلائے اور بے نام و نشان ہو گئے۔۔۔۔۔اللہ والے کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ بڑائی کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ کوئی بات ظاہر ہونے لگے بات کا رخ بدل لیتے ہیں ۔۔۔یہ بھی نصحیت کرتے ہیں کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے نیویں نیویں ہو کر نکل جائیے۔۔۔۔ذکر الہی کو دل میں بسانے کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔اپنی بات تو کرتے ہی نہیں۔۔۔۔صاف کہتے ہیں کہ میرے پاس یہی سیدھی سادی باتیں ہیں۔۔۔قرآن مجید کے مسائل پوچھنے ہیں تو شیخ القرآن سے رجوع کریں ۔۔۔حدیث رسول کے مسائل پوچھنے ہیں تو شیخ الحدیث سے رابطہ کریں۔۔۔۔۔اللہ کے بندوں کا یہی وطیرہ ہے کہ وہ نمود و نمائش سے بھاگتے ہیں۔۔۔بہر حال لاہور سے منارہ کا یہ روحانی سفر ایک یادگار سفر تھا۔۔۔۔مولانا عبدالقدیر اعوان کی خلوص سے مزین میزبانی کا شکریہ۔۔۔۔۔۔!!!
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور روز مرہ کے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر سی ٹی وی نیوز کا ’آفیشل چینل یا آفیشل گروپ‘ جوائن کریں